عمران خان کی سیاست سے ممکنہ بے دخلی: صرف دو راستے، مگر فیصلہ خود عمران خان کا؟

 



عمران خان کی سیاست سے ممکنہ بے دخلی: صرف دو راستے، مگر فیصلہ خود عمران خان کا؟

پاکستان کے سیاسی منظرنامے میں عمران خان کی ممکنہ رہائی یا سیاست سے اخراج پر بحث ایک بار پھر تیز ہو گئی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق عمران خان کے سسٹم سے باہر ہونے کے صرف دو ہی عملی منظرنامے ہیں، اور دونوں اسی وقت ممکن ہیں جب وہ خود ایسا چاہیں۔

سینئر صحافی صدیق جان کے مطابق یہ سمجھنا ضروری ہے کہ عالمی طاقتیں عموماً پاکستان کے اندرونی سیاسی معاملات میں مداخلت سے گریز کرتی ہیں۔ اس کی واضح مثال چین ہے، جو پاکستان کا قریبی اتحادی ہونے کے باوجود سیاسی معاملات پر خاموش رہتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے روس۔

انہوں نے مزید کہا کہ خلیجی ممالک، جہاں بڑی تعداد میں پاکستانی مقیم ہیں، وہاں عمران خان کے حق میں آواز تو اٹھتی ہے، مگر یہ آوازیں ریاستی سطح پر مؤثر دباؤ میں تبدیل نہیں ہو پاتیں۔ سعودی عرب جیسے ممالک اگرچہ پاکستان پر اثر رکھتے ہیں، تاہم وہاں کوئی ایسا رہنما موجود نہیں جو عمران خان کے عالمی سیاسی قد کاٹھ کے برابر ہو۔ اسی لیے ان ممالک کی جانب سے عمران خان کی رہائی کے لیے سنجیدہ عالمی دباؤ کا امکان کم دکھائی دیتا ہے۔

اس تناظر میں تجزیہ کار حبیب اکرم کا کہنا ہے کہ اگر سسٹم عمران خان کو کمزور کرنا چاہتا ہے تو اس کے صرف دو ہی ممکنہ راستے ہیں:

  1. عمران خان کسی ڈیل کے ذریعے جیل سے باہر آئیں

  2. یا جیل سے رہائی کے بعد پاکستان چھوڑ دیں اور بیرونِ ملک جا کر سیاست سے عملی طور پر دور ہو جائیں

حبیب اکرم کے مطابق یہ دونوں راستے عمران خان کو سیاسی طور پر تصویر سے باہر کر سکتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ اگر عمران خان ایسا کرنا چاہتے تو وہ گزشتہ تین برسوں میں یہ فیصلہ کر چکے ہوتے۔ ان کا مؤقف ہے کہ عمران خان نہ کسی ڈیل کے تحت ملک چھوڑیں گے اور نہ ہی سیاست سے پیچھے ہٹیں گے۔

تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ عمران خان کو زبردستی سیاسی منظر سے ہٹانے کی کوششیں ایکشن نہیں بلکہ ردِعمل ہیں، جو طویل المدت میں نہ ریاست کے مفاد میں ہوں گی اور نہ ہی پاکستان کے سیاسی نظام کے لیے سودمند ثابت ہوں گی۔



Post a Comment

0 Comments