سیالکوٹ میں خاتون نے بیٹے کے قتل کاملزم 7 سال بعد مار ڈالا

 



سیالکوٹ کے نواحی علاقے میں نعمان نامی شخص نے فارگ کرکے 22 سالہ نوجوان تسلیم کو ق کردیا۔ تسلیم کا باپ پہلے ہی وفات پاچکا تھا۔ اس کی بیوہ ماں پروین بی بی نے محنت مزدوری کرکے تسلیم کو پال پوس کر بڑا کیا جو آگے چل کر پروین کا سہارا بننا تھا مگر شوہر کے بعد یہ سہارا بھی چھن گیا۔
پروین بی بی نے بے سر و سامانی میں بیٹے کا مقدمہ لڑنا شروع کیا اور قسم کھائی کہ جب تک بیٹے کے خون کا حساب نہیں ملتا، میں ننگے پاؤں گھوموں گی۔
پولیس نے ملزم کو گرفتار کیا۔ مقدمہ چلتا رہا اور 7 سال بعد سیشن کورٹ نے ثبوت اور گواہی کی روشنی میں ملزم نعمان کو مجرم قرار دیتے ہوئے سزائموت سنادی۔ ماں کا کلیجہ ٹھنڈا ہوگیا مگر یہ ٹھنڈک عارضی ثابت ہوئی۔ مجرم نے لاہور ہائیکورٹ میں اپیل کردی اور ہائیکورٹ نے یہ کہہ کر اس کو رہا کردیا کہ سیشن کورٹ میں پیش کیے گئے ثبوت ناکافی ہیں اور قانون کو مزید "ٹھوس" شواہد درکار ہیں۔ 
مجرم چالاک بھی تھا اور امیر بھی۔ جیل سے نکلتے ہی بیرون ملک چلا گیا اور پروین بی بی ننگے پیر سیالکوٹ کی گلیوں میں اسے ڈھونڈتی رہی۔ 
آخر ایک ماں کا انتقام مجرم کو واپس سیالکوٹ کھینچ لایا اور ماں نے مجرم کے گھر کے دروازے پر ہی اسے ق کردیا۔ اور خود 7 سال بعد جوتے پہنے اور تھانے میں جاکر گرفتاری دے دی۔
پروین بی بی نے قانون ہاتھ میں لے کر درست نہیں کیا مگر قانون نے اس کے ساتھ کون سا انصاف کیا تھا
ایک طرف سچ تھا۔ پورا علاقہ جانتا تھا۔ مجرم نے دن دیہاڑے ایک یتیم کو ق کیا۔ ایک بیوہ کو دوسری مرتبہ بے سہارا کردیا اور اسی بنیاد پر اسے سزائموت ہوئی۔ 
دوسری طرف قانون تھا جس کو ثبوت درکار تھے۔ ہائیکورٹ کو ثبوت ناکافی محسوس ہوئے اور اس نے سچ کا ق کرتے ہوئے مجرم کو بری کردیا۔ 
ثبوت اور سچ کے درمیان سات سالہ فاصلے میں سچ ہار گیا اور اس کے ساتھ پروین بی بی کا بھی عدل و انصاف کے نظام سے ہی اعتماد اٹھ گیا اور اس نے مزید اپیل کے بجائے اپنے انداز میں انصاف کے حصول کا فیصلہ کرلیا۔
اب پھر وہی قانون ہے، وہی سچ، وہی ثبوت، وہی عدالتیں اور وہی پولیس ہے مگر کٹھہرے میں نعمان نہیں بلکہ پروین بی بی ہیں۔ سچ بھی پروین بی بی کے خلاف ہے اور ثبوت بھی۔ 
میرا پروین بی بی سے کوئی رشتہ نہیں۔ وہ سیالکوٹ کے ایک دیہات میں رہتی ہیں اور میں پاکستان کے دوسرے کونے میں بستا ہوں۔ مگر میری اور میرے جیسے ہزاروں عام پاکستانیوں کی ہمدردیاں پروین بی بی کے ساتھ ہیں کیونکہ قانون ایک آنکھ سے دیکھتا ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ قانون بھی ہماری طرح دونوں آنکھوں سے دیکھے تاکہ ایک بیوہ ماں کو اپنا سچ ثابت کروانے کیلئے 7 سال تک ننگے پیر عدالتوں کے چکر لگانے کے بعد مایوس ہوکر قانون ہاتھ میں نہ لینا پڑے۔
جب ماہیں بیٹوں کے ق کا فیصلہ خود کرنے لگیں تو انصاف کے ایوانوں پر لگے ترازو ٹماٹر تولنے کے قابل نہیں رہت


Post a Comment

0 Comments