ماں کو اولڈ ایج ہوم چھوڑ کر بیٹا نکلا ہی تھا...
موبائل بجا — بیوی کی کال تھی۔
"کیا تم نے اپنی ماں کو وہاں چھوڑ دیا؟"
بیٹا بولا: "ہاں، چھوڑ دیا..."
بیوی کی آواز بدلی، تیز اور سرد:
"دوبارہ جا کر کہہ دینا،
کسی تہوار یا چھٹی والے دن بھی گھر مت آنا،
اب اُنہیں اپنی زندگی وہیں گزارنی ہوگی۔
ہم جب چاہیں گے، خود ملنے آ جائیں گے۔"
بیٹا خاموش رہا،
دل میں ایک چبھن سی ہوئی… مگر بیوی کے ڈر سے کچھ نہ بولا۔
گھر پہنچا تو سب کچھ معمول کے مطابق لگا —
مگر نیند اُس رات اُڑ گئی۔
اگلی صبح وہ سوچتا رہا —
"کیا ماں واقعی ناراض ہو گی؟"
"شاید وہ روئی ہو گی..."
"شاید میرا انتظار کر رہی ہو..."
دو دن بعد اس نے ہمت کی،
پھولوں کا گلدستہ لیا،
اور اولڈ ایج ہوم پہنچ گیا۔
دروازے پر سب خاموش تھے،
استقبالیہ پر بیٹھے شخص نے نگاہ جھکائی اور بولا:
"کاش آپ ایک دن پہلے آ جاتے..."
بیٹے کے ہاتھ سے پھول زمین پر گر گئے۔
ماں اب نہیں رہی تھی —
بستر کے قریب صرف ایک چٹھی رکھی تھی۔
چٹھی پر لکھا تھا:
"بیٹا، میں نے تجھے کبھی اکیلا نہیں چھوڑا…مگر تُو نے مجھے چھوٹی سی جگہ میں بند کر دیا۔شاید یہی وقت کا انصاف تھا…میں تجھے معاف کرتی ہوں۔"
بیٹے کے آنسو رُکنے کا نام نہ لے رہے تھے۔
اس دن کے بعد اس نے کبھی ہنسا نہیں —
بیوی سے نفرت کی، مگر دیر ہو چکی تھی۔
کچھ سال بعد…
اسی بیوی کو اپنے بیٹے نے نرسنگ ہوم میں چھوڑا۔
دروازہ بند ہوا تو وہ چلا گئی —
بالکل ویسے ہی جیسے کبھی ماں گئی تھی۔
💔 زندگی نے بدلہ نہیں لیا…
صرف سبق دیا کہ ماں کبھی پرانی نہیں ہوتی۔
.jpg)

0 Comments